Janoon E Ishq
(فاروقی صاحب اپنی بیگم کے ساتھ لاونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ تبھی تبھی ایک پیاری سی لڑکی لاونج میں داجل ہوئی)
"وہ ایک انیس سالہ نہایت حسین،شرارتی،چلبلی اور بہت ذہیں لڑکی تھی جس کا نام مہرالنساء تھا جو کراچی میں پلی بڑھی تھی اور اب وہ یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔"
مہر:السلام علیکم!مما بابا کیسے ہیں؟
فاروقی صاحب:وعلیکم السلام! آ گیا میرے بچا پڑھ کر۔۔۔کیسا رہا دن؟
شائستہ بیگم:وعلیکم السلام! میری بچی۔۔
مہر:بہت اچھا دن رہا بابا۔۔۔مما کھانا لگوا دیں بہت بھوک لگی ہے
(ابھی مہر نے بات مکمل ہی کی تھی کہ ہوا کے گھوڑے پر سوار سیڑھیاں اترتا مہر کا چھوٹا بھائی آ گیا)
حماد:آپی۔۔۔۔۔
آپ نے وعدہ کیا تھا کہ یونیورسٹی سے آ کر آئسکریم کھلانے لے کر جائیں گی۔۔۔۔چلیں چلتے ہیں۔
(حماد کی خوشی کی انتہا نہ تھی آخر کیوں نا ہوتا خوش آخر چھوٹا اور لاڈلا بھائی جو تھا)
شائستہ بیگم:بیٹا! اسے کھانا تو کھانے دو،آرام تو کرنے دو۔
(یہ سنتے ہی حماد نے منہ بنا لیا)
مہر:کوئی بات نہیں مما آخر اس کے لاڈ نہیں اٹھاوں گی تو کس کے اٹھاوں گی۔۔۔چلو چلیں بھائی۔۔
(حماد یہ سنتے ہی خوشی سے جھوم اٹھا)
"**دبئی مافیا کا گھڑ**"
(ال براری کے ایک آلیشان آپارٹمینٹ میں موجود ایک چوبیس سالہ شخص رہائش پزیر تھا جسے لوگ "شاہ" کےنام سے جانتے تھے)
"وہ چوبیس سالہ لڑکا ایک مافیا ڈون تھا جس کا نام "ابراہیم شاہ" تھا جس سے دبئ کے تمام گینگسٹرز بھی خوف کھاتے تھے"
سارم:ہیلو شاہ!
آو چائے تیار ہے۔۔۔
(سارم شاہ کے کمرے کے باہر لاونج میں بیٹھا تھا اس کا انتظار کر رہا تھا)
شاہ:ہائے!
(شاہ ایک سنجیدہ انسان تھا جسے کبھی کسی نے ہنستا نہیں دیکھا تھا،شاہ کو صرف اپنے کام میں دلچسپی رہتی تھی ہمیشہ)
سارم:جو کام تم نے ذمے لگایا تھا وہ ہو چکا ہے۔
(سارم نے شاہ کو ساری معلومات دی اور ابھی اس نے بات مکمل ہی کی تھی کہ اتنے میں جولی بھی وہاں پہنچ گئی)
جولی:ہائے شاہ!
عباس کا سارا ڈیٹا میں ہیک کر چکی ہوں اب اس کی ساری انفورمیشن اب ہمارے پاس ہے۔
(جولی شاہ کی واحد لیڈی ورکر تھی وہ چھے ماہ پہلے ہی دبئ آئی تھی اور وہ اتنے سے ہی وقت میں ماہر ہیکر بن چکی تھی)
شاہ:شاباش جولی!
بہت اچھے اسی طرح کام کرتی رہو۔۔
سارم:واہ جی واہ!
کیا بات ہے صبح صبح تعریفیں ہو رہی۔۔
(سارم جولی کو چھیڑ رہا تھا)
جولی:جسٹ شٹ اپ!
(جولی نے زور سے اپنا پیر سارم کے پیر پر مارا اور سارم کی چیخ نکل گئی)
شاہ:کیا ہوا؟
سارم:کچھ نہیں۔۔۔۔کچھ بھی تو نہیں۔
(وہ تینوں حویلی کی طرف روانہ ہو گئے)
(مہر صبح یونیورسٹی کے لیے تیار ہو کر نیچے ڈائننگ ٹیبل پر آتی ہے جہاں فاروقی صاحب اخبار پڑھ رہے ہوتے ہیں)
مہر:السلام علیکم بابا مما!
فاروقی صاحب:وعلیکم السلام بیٹا!
(فاروقی صاحب اخبار چھوڑ کر ناشتہ کرنے لگتے ہیں)
شائستہ بیگم:وعلیکم السلام میری بچی!
بہت پاری لگ رہی ہو۔۔۔
مہر:ماشاللہ!آپ سے زیادہ نہیں مما آپ تو اس بنارسی ساڑھی میں بہت حسین لگ رہی ہیں۔۔۔۔نظر نہیں ہٹ رہی آپ سے۔ہینا بابا؟
فاروقی صاحب:ماشاللہ! بے شک بیٹا تمہاری مما بہت حسین ہیں صرف اس ساڑھی میں ہی نہیں ہر لباس میں قیامت لگتی ہیں۔۔۔
(شائستہ بیگم شرماتی ہیں اور مہر اور فاروقی صاحب ہنسنے لگ جاتے ہیں)
شائستہ بیگم:اچھا بس کریں آپ دونوں اور ناشتہ کریں ورنہ دیر ہو جائے گی،میں اس نکمے حماد دیکھتی ہوں تیار ہوا ہے یا نہیں۔۔۔۔
(فاروقی صاحب کو اچانک خیال آیا وہ اپنا بیگ اٹھا کر مہر کو پیار دے کر آفس کے لیے نکل گئے۔۔۔مہر نے بھی ناشتہ کیا اور ناشتہ کر کہ یونیورسٹی کے لیے روانہ ہو گئی)
***Download NovelToon to enjoy a better reading experience!***
Comments